اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت ملائیشیا کے وزیراعظم پاکستان میں ہیں ایس سی او بھی پاکستان میں ہورہی ہے، پی ٹی آئی کو کہوں گا کسی ملک کا صدر آپ کے ملک میں ہو اور آپ کہیں ہم اسلام آباد پر دھاوا بولیں گے تو یہ ٹھیک نہیں ہے کیوں کہ ملائیشین وزیراعظم آپ کے ملک میں ہیں اور آپ اسلام آباد پر دھاوا بولنے کا کہہ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملائیشین وزیراعظم کے پروٹوکول میں کوئی کمی نہیں آنے دیں گے ہم اس طریقے سے کسی جلسے کی اجازت نہیں دیں گے، کسی ملک کا سربراہ شہرمیں موجود ہوں اور آپ شہر پردھاوا بولیں تو آپ کس کے مفاد کے لیے کام کررہے ہیں؟ بھارتی وزیراعظم لاہور میں تھے اور ایک چھوٹا سا واقعہ ہوا اور وہ ابھی تک ہمیں خراب کرتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ کوئی ڈی چوک آنے کی بات کرے تو جو ہاتھ چڑھے گا اس کے ساتھ کوئی نرمی نہیں ہوگی وزیراعلی پختونخوا کو یہ زیب نہیں دیتا، اگر کل کوئی اسلام آباد میں احتجاج کرے گا تو ہم نے اس کے لیے پورا بندوبست کیا ہوا ہے ہم خبردار کررہے ہیں پھر کوئی شکوہ نہ کرے۔
انہوں نے کہا کہ سعودی وفد پاکستان آرہا ہے ہم نے آرمی کو اسلام آباد میں تعینات کردیا ہے ہمیں ہر صورت سیکورٹی کو یقینی بنانا ہے، انہیں بطور پاکستانی یہ زیب نہیں دیتا مولانا فضل الرحمان نے درخواست کی ہے احتجاج کو موخر کردیں اگر موخر نہیں کریں گے تو پھر اسٹیٹ موجود ہے، سیاسی کارکن کل نکلنے سے پہلے دس دفعہ سوچیں بعد میں ہم سے شکوہ نہ کریں سترہ اکتوبر تک ہم نے اپنی حکمت عملی بنالی ہے۔
]]>میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے کہا کہ سمجھتے ہیں سپریم کورٹ کے فیصلے سے عوام کے حقوق متاثر ہوئے، سپریم کورٹ کا فیصلہ آخری ہے، اس پر عمل کریں گے، بلے کا نشان نہ دینے سے ملک کو نقصان پہنچے گا۔
انہوں نے کہا کہ تین دن کے اندر پی ٹی آئی کے آفیشل اکائونٹس سے اپنے امیدواروں کا بتائیں گے، امیدوار آزاد ہوں تو ہارس ٹریڈنگ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، میرے گھر پر چھاپے پر آئی جی صاحب نے کمٹمنٹ کی ہے، کچھ لوگ معطل بھی کیے گئے ہیں۔
]]>قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الہیٰ ایوان کا اعتماد کھوچکے ہیں، وہ پنجاب اسمبلی سے دوبارہ اعتماد کا ووٹ لیں۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد گورنر بلیغ الرحمان چودھری پرویز الہیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہیں گے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الہیٰ کے بعد سپیکر سبطین خان اور ڈپٹی سپیکر واثق قیوم کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی گئی۔
تحریک عدم اعتماد کی تصدیق کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما عطا تارڑ نے کہا ہے کہ اتحادیوں کی مشاورت کے بعد وزیراعلیٰ، سپیکر، ڈپٹی سپیکر کےخلاف عدم اعتماد جمع ہوچکی ہے، ہمارے اتحادیوں کا یہ خیال ہے کہ اسمبلیوں کواپنی مدت پوری کرنی چاہیے،انتخابات کیلئے بھی ہم تیار ہیں۔
عطا تارڑ نے مزید کہا کہ پچھلے کافی دنوں سے یہ معاملات چل رہےتھے، تحریکیں جمع ہوچکی ہیں، اب اسمبلیوں کی تحلیل نہیں ہوسکے گی، جب عدم اعتماد آجائے تواسمبلیوں کی تحلیل نہیں ہوسکتی۔ گورنر صاحب کی جانب سے آرڈر بھی جاری کر دیا گیا ہے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما خلیل طاہر سندھو نے کہا ہے کہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے جمع کروا دی ہے ہمارے پاس نمبر پورے ہیں اور بہت زیادہ ہیں
پیپلز پارٹی کے رہنما حسن مرتضیٰ نے کہا کہ ہماری تعداد پوری ہے یا نہیں اس کا جواب کل مل جائے گا، آصف زرداری ممکنات کےکھلاڑی ہیں وہ جسے چاہیں گے اگلا وزیراعلیٰ آ جائے گا، قوم جلد خوشخبری سنےگی۔
علاوہ ازیں گورنر پنجاب نے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الہیٰ کو اعتماد کے ووٹ کیلئے خط لکھ دیا اس حوالے سے گورنر نے بدھ کو شام 4 بجے پنجاب اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا ہے، اعتماد کے ووٹ کیلئے یہ خصوصی اجلاس طلب کیا گیا ہے
]]>آئی ایس پی آر کے مطابق دہشتگردوں نے سکیورٹی فورسز کی چوکی کو نشانہ بنایا، سکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائی سے دہشتگرد پسپا ہوکر فرار ہوگئے۔
دہشتگردوں اور سکیورٹی فورسز میں شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا، سکیورٹی فورسز قوم کے تعاون سے بلوچستان کا امن و استحکام سبوتاژ کرنے کی کوشش ناکام بنانے کیلئے پر عزم ہے۔
]]>قبل ازیں سپریم کورٹ بار کے صدر احسن بھون کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی، شہباز شریف، بلاول بھٹو، فضل الرحمان، اختر مینگل اور دیگر رہنما عدالت میں پیش ہوئے۔
وزیراعظم عمران خان کے خلاف جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی صورتحال اور اسلام آباد میں جلسوں کو روکنے کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ یہ محض قانونی مسئلہ نہیں، یہ سیاسی مسئلہ بھی ہے، اس میں انا نہیں ہونی چاہیے، اس عمل کو خوش اسلوبی سے مکمل کرنا ہے، اگر آپ لوگوں کو کچھ خدشات ہیں کہ تصادم ہو سکتا ہے، ہمیں 24 تاریخ کو مواد لاکر دکھا دیں، جہاں الیکشن ہوتا ہے وہاں ہم رک جاتے ہیں، ہمیں مواد دکھا دیں، اگر تمام سیاسی جماعتیں متفق ہوئیں تو کوڈ آف کنڈکٹ بنا لیں گے۔
انہوں نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ ہم اس بات کی اجازت نہیں دینگے، کوشش کریں ڈی چوک پر جلسہ نہ ہو، اکھٹے بیٹھ کر اتفاق رائے پیدا کریں، لوگوں کو لاکر کسی ووٹ ڈالنے والے کو روکنے کی اجازت نہیں دینگے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اسپیکر پر کوئی اعتراض ہو تو پارلیمنٹ میں اٹھائیں، اسپیکر بھی آئین کا حصہ ہے، اٹارنی جنرل نے یقین دلایا ہے کہ حکومت پر امن انداز میں احتجاج کرے گی۔
منحرف ارکان تاحیات نااہل ہونگے یا دوبارہ الیکشن لڑ سکیں گے؟ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی جائے، حکومت سپریم کورٹ پہنچ گئی، ہارس ٹریڈنگ کے حوالے سے صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کردیا جس پر عدالت نے معاملے پر لارجر بنچ تشکیل دیدیا ہے جبکہ چیف جسٹس نے 24 مارچ کو صدارتی ریفرنس پر سماعت کا حکم دے دیا۔
آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا گیا، صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ سے 4 سوالوں کے جواب مانگے گئے ہیں۔
پہلا سوال یہ ہے کہ آرٹیکل 63 اے کی کونسی تشریح قابل قبول ہے؟ کیا پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ دینے سے نہیں روکا جا سکتا؟ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ شمار نہیں ہوگا، ایسا کرنے والا تاحیات ناہل ہوگا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا منحرف ارکان کا رکن ووٹ شمار ہوگا یا گنتی میں شمار نہیں ہوگا؟۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ دینے والا رکن صادق اور امین نہں رہے گا، کیا ایسا ممبر تاحیات نااہل ہوگا؟۔ آخری سوال یہ ہے کہ فلور کراسنگ یا ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کے مزید اقدامات کیا ہو سکتے ہیں؟ آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا۔
صدارتی ریفرنس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ معاملے کو سننا چاہتے ہیں، فریقین تیاری سے آئیں، حکومتی اتحادیوں کو نوٹس جاری نہیں کیے، اگر اتحادی اپنی نمائندگی چاہتے ہوں تو گزارشات دے دیں، کوشش کریں گے جلد ریفرنس پر اپنا فیصلہ دیں، صدارتی ریفرنس کیوجہ سے پارلیمنٹ کی کارروائی تاخیر کا شکار نہیں ہو گی۔
چیف جسٹس نے 24 مارچ سے صدارتی ریفرنس پر سماعت کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ہمارے پاس دستاویزات نہیں ہے کہ 25 کو اجلاس بلانے کی کیا وجہ ہے بتائیں؟ ہمیں ان وجوہات کو دیکھنے کا جواز نہیں ہے، ایڈوائزر اختیار میں صدارتی ریفرنس آیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آئینی تقاضوں کو پورا کرنے نہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، سپریم کورٹ سے کوئی حکم امتناع نہیں مانگ رہے ہیں، صدارتی ریفرنس کی وجہ سے اسمبلی کارروائی متاثر نہیں ہوگی، کسی کو ووٹ کا حق استعمال کرنے سے روکا نہیں جاسکتا، ووٹ شمار ہونے کے معاملہ پر ریفرنس میں سوال اٹھایا ہے، ووٹ ڈالنے کے بعد کیا ہو گا یہ ریفرنس میں اصل سوال ہے۔
]]>