اسلام آباد – وزیراعظم شہباز شریف نے غزہ میں جاری جنگ کے خاتمے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ امن منصوبے کا خیر مقدم کیا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر اپنے بیان میں وزیراعظم نے کہا کہ فلسطینی عوام اور اسرائیل کے درمیان پائیدار امن کا قیام مشرقِ وسطیٰ میں سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کے لیے نہایت ضروری ہے۔
وزیراعظم نے اپنے پیغام میں کہا کہ وہ صدر ٹرمپ کے 21 نکاتی امن منصوبے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، کیونکہ اس کا مقصد غزہ میں فوری جنگ بندی اور ایک مستقل امن کی راہ ہموار کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ اس حساس اور اہم معاہدے کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے پوری طرح تیار ہیں، اور وہ اس مقصد کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کر رہے ہیں۔
شہباز شریف نے خصوصی طور پر صدر ٹرمپ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف کے کردار کی بھی تعریف کی، جو اس امن منصوبے کی تشکیل اور سفارتی کوششوں میں سرگرم ہیں۔ وزیراعظم نے یہ بھی واضح کیا کہ ان کی حکومت دو ریاستی حل کو ہی خطے میں پائیدار امن کی واحد ضمانت سمجھتی ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اور دیگر عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق، صدر ٹرمپ کے امن منصوبے میں متعدد اہم نکات شامل ہیں جن میں حماس اور اسرائیل کے درمیان فوری قیدیوں کا تبادلہ، حماس کے عسکری ڈھانچے کا خاتمہ، اور غزہ میں عبوری حکومت کا قیام شامل ہے۔ اطلاعات کے مطابق، معاہدے کے 48 گھنٹوں کے اندر تمام یرغمالیوں کی رہائی عمل میں آئے گی، جبکہ اسرائیل کئی سو فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرے گا۔
امن منصوبے کے تحت، حماس کے ان ارکان کو عام معافی دی جائے گی جو جنگ بندی کے لیے تیار ہوں گے، جبکہ عسکری گروہ کا مستقبل میں کسی بھی سیاسی یا سیکیورٹی کردار سے مکمل اخراج کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ، اسرائیلی دفاعی افواج بتدریج غزہ سے انخلا کریں گی اور علاقے کو عبوری انتظامیہ کے تحت چلایا جائے گا۔
یہ منصوبہ صدر ٹرمپ کی سابقہ پالیسیوں سے ایک واضح انحراف کی عکاسی کرتا ہے، کیونکہ ماضی میں ان کی انتظامیہ غزہ کی مکمل آبادی کو بےدخل کرنے اور علاقے کو ایک کاروباری زون میں تبدیل کرنے کی تجویز دے چکی ہے۔ تاہم، اب یہ منصوبہ فلسطینی عوام کی ریاستی خودمختاری کی خواہشات کو کسی حد تک تسلیم کرتا ہے، بشرطیکہ فلسطینی اتھارٹی اندرونی اصلاحات پر آمادہ ہو۔
دوسری جانب، وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیوٹ نے ایک امریکی ٹی وی پروگرام میں بتایا ہے کہ اسرائیل اور حماس ایک فریم ورک معاہدے کے "بہت قریب” پہنچ چکے ہیں۔ ان کے مطابق، صدر ٹرمپ جلد ہی اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے ملاقات کریں گے اور امن منصوبے کی تفصیلات پر گفتگو کریں گے۔ قطر کی قیادت سے بھی بات چیت جاری ہے، جو حماس کے ساتھ ثالثی کا کردار ادا کر رہی ہے۔
کیرولین لیوٹ کا کہنا تھا کہ دونوں فریقین کو کچھ نہ کچھ قربانی دینا ہوگی، اور ممکن ہے کہ دونوں مکمل مطمئن نہ ہوں، لیکن یہی وہ قدم ہے جو غزہ میں جنگ کے خاتمے اور مشرقِ وسطیٰ میں امن کے قیام کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔