چند روز قبل کابینہ کی کمیٹی برائے قومی سلامتی، جسے عرف عام میں نیشنل سیکورٹی کمیٹی کہا جاتا ہے، کا اجلاس وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت منعقد ہوا۔ قومی سلامتی کے حوالے سے یہ سب سے اہم فورم یوں سمجھا جاتا ہے کہ اس میں وزیراعظم اور اہم وزرا کے علاوہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، آرمی چیف، نیول چیف اور ائرچیف بھی بیٹھتے ہیں۔ اس اجلاس کے بعد میڈیا کو جو خبر جاری کی گئی اس کی رو سے کمیٹی نے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ایک جامع آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
جہاں تک میری معلومات ہیں تو یہ سوات یا وزیرستان جیسا کوئی آپریشن نہیں ہوگا بلکہ جنگی سطح پر یہ ٹارگٹڈ آپریشن ہوگا جو پختونخوا اور بلوچستان میں پہلے سے جاری ہے لیکن جس بندے نے پریس ریلیز تیار کی، اس میں ایسے الفاظ استعمال کئے گئے جس سے پورے پختونخوا اور بالخصوص قبائلی اضلاع میں یہ خوف پیدا ہوگیا کہ شاید ماضی کی طرح دوبارہ ہجرتوں اور بمباریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پریس ریلیز میں الفاظ استعمال ہوئے کہ :“An all-out comprehensive operation with the entire nation and the government, which will rid the country of the menace of terrorism with renewed vigor and determination.”
ہمہ گیر اور جامع کے الفاظ سے زیادہ تر لوگوں نے بجا طور پر یہ تاثر لیا کہ ماضی کے آپریشنوں کی طرح کوئی نیا ملٹری آپریشن شروع کیا جائے گا لیکن جہاں تک میں سمجھا ہوں تو اس سے مراد یہ ہے کہ عسکریت پسندی سے جڑے دیگر پہلوئوں مثلا بیانئے کی تشکیل، پروپیگنڈے، سوشل میڈیا کے ذریعے عسکریت پسندوں کے پروپیگنڈے کو روکنے اور اسی طرح کے دیگر پہلوئوں پر محیط کارروائی شروع کی جائے گی جس کی حکمت عملی طے کرنے کیلئے ایک کمیٹی بھی بنائی گئی ہے۔ جہاں تک ٹارگٹڈ ملٹری آپریشن کا تعلق ہے تو وہ تو پختونخوا اور بلوچستان میں کب سے جاری ہے۔ حقیقتا ً وہاں جنگ جیسی صورت حال ہے۔ جنگ یا آپریشن اور کس بلا کا نام ہے؟
خیبر پختونخوا میں ایک دن بھی ایسا نہیں گزرتا کہ یا عسکریت پسند کوئی کارروائی نہ کریں یا پھر سیکورٹی فورسز کی طرف سے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو۔ اب کی بار یہ صرف قبائلی اضلاع تک محدود نہیں بلکہ صوابی سے پشاور اور باجوڑ سے وزیرستان تک پھیلا ہوا ہے۔ ہمارے وزیر دفاع یا وزیر اطلاعات کا تو ان چیزوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا اس لئے حکومتی سائیڈ کی تفصیلات ہمیں معلوم نہیں لیکن ٹی ٹی پی کی طرف سے جو رپورٹ جاری کی گئی ہے اس کی رو سے گزشتہ تین ماہ کے دوران انہوں نے 117 کارروائیاں کی ہیں، جن میں ان کے بقول آرمی کے 99، پولیس کے 167، ایف سی کے 73، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے 18 اور رینجرز کے 7 افراد لقمہ اجل بنے۔
دوسری طرف فوج، ایف سی، پولیس اور انٹیلی جنس ادارے ان کے خلاف پوری طرح متحرک ہیں اور جہاں انہیں سراغ ملتا ہے، وہ کارروائیاں کرتے ہیں، اس کے باوجود گزشتہ روز ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں طالبان خیبر ایجنسی کے تیراہ بازار میں گشت کرتے ہوئے نظر آئے۔
اب خیبر پختونخوا کے عوام پہلے سے خوف اور دہشت کی فضا میں جی رہے ہیں لیکن آپریشن کا نام سننے سے ان کی نیندیں مزید حرام ہوگئیں اور حکومت کا عالم یہ ہے کہ اس نے اپنی اتحادی اے این پی کو بھی اعتماد میں نہیں لیا اور یہی وجہ ہے کہ منظور پشتین کے علاوہ ایمل ولی خان نے بھی نئے آپریشن کے حوالے سےتحفظات کا اظہار کیا۔ اسی طرح جے یو آئی جو خیبر پختونخوا میں حکمراں اور مرکزی حکومت میں اہم ترین حصہ دار ہے، کی قیادت بھی اس حوالے سے مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔
اس کے وزرا یا گورنر نے بھی قوم کو یہ نہیں بتایا کہ اگر ماضی کی طرح آپریشن ہے تو ان کے حکومت میں ہوتے ہوئے اس کی منظوری کیوں دی گئی اور اگر ٹارگٹڈ ہے تو پھر ہمہ گیر اور جامع سے کیا مراد ہے؟ جہاں تک میری طالبعلمانہ رائے ہے تو میں نے ماضی کے ہر آپریشن کی مخالفت کی ہے اور اگر اب ایسا ہوتا ہے تو اس کے خلاف بھی آواز اٹھائوں گا لیکن تادم تحریر میری معلومات کے مطابق ماضی کی طرح کا کوئی آپریشن شروع نہیں کیا جارہا ہے اور ہمہ گیر اور جامع سے مراد یہ ہے کہ پروپیگنڈے، اداروں کے مابین ہم آہنگی لانے اور سوشل میڈیا یا بیانیہ وغیرہ جیسے پہلوئوں پر بھی توجہ دی جائے گی لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سب کام کون کرے گا؟ ابھی تک تو حکومت کے اندر قومی سلامتی کے ایشوز کی طرف عدم توجہی کا یہ عالم ہے کہ ایک سو سے زائد وزرا، مشیروں اور معاونین خصوصی کی فوج بھرتی کی گئی ہے لیکن قومی سلامتی کے مشیر کا عہدہ خالی ہے۔
طالبان کی میڈیا مینجمنٹ، موجودہ حکومت سے سو گنا بہتر ہے۔ وہ ہر ایشو پر اپنا موقف منٹوں میں سوشل میڈیا کے ذریعے پہنچاتے ہیں۔ ان کے خلاف کارروائی ہو یا وہ کارروائی کریں تو منٹوں میں وہ تفصیلات اور اپنا موقف میڈیا تک پہنچا دیتے ہیں لیکن حکومتی وزرا تک کو اس کا علم نہیں ہوتا۔ اب تو طالبان اپنا آن لائن ریڈیو بھی چلاتے ہیں اور آن لائن ماہانہ رسالہ بھی شائع کرتے ہیں لیکن حکومت میں شامل جماعتوں کا ان کے حوالے سے کوئی ایک بیانیہ ہی نہیں کیونکہ اے این پی اور پیپلز پارٹی کچھ اور جبکہ جے یو آئی کچھ اور سوچ رکھتی ہے۔
مسئلے کی جڑیں افغانستان میں پیوست ہیں لیکن وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ایک سال مکمل ہونے کے باوجود افغانستان کا دورہ نہیں کیا۔ پہلے افغانستان کیلئے خصوصی نمائندے صادق خان ہمہ وقت طالبان حکومت کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے اور بارڈر کے معاملات پر بھی توجہ دیتے تھے لیکن اب انہوں نے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔ کوآرڈنیشن کیلئے نیکٹا کا ادارہ قائم کیا گیا تھا لیکن وہ پولیس افسران کیلئے بیگار کیمپ بن گیا ہے۔ اس کے پاس اختیار ہے اور نہ وسائل۔
نیشنل سیکورٹی پالیسی کو آج تک شاید کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا اور گزشتہ روز میں نے نیشنل سیکورٹی ڈویژن کی ویب سائٹ کو وزٹ کیا تو وہاں نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی پریس ریلیز تک موجود نہیں تھی۔ بلکہ مخلوط حکومت کے بعد وہاں سیکرٹری کی چند ملاقاتوں کی تصاویر کے سوا کچھ اور نظر نہیں آتا۔ میں حیران ہوں کہ ان حالات میں موجودہ حکومت سیکورٹی اداروں کے مابین کوآرڈنیشن کیسے لائیگی اور عسکریت پسندوں کے موثر پروپیگنڈے کا جواب کیسے دے سکے گی؟ میرا کل بھی یہ موقف تھا اور آج بھی یہ موقف ہے کہ مسئلے کا حل صرف جنگ نہیں بلکہ مذاکرات ہیں لیکن اس طرح کے مذاکرات نہیں، جس طرح عمران حکومت میں کئے گئے۔ بشکریہ روزنامہ جنگ