اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ معاشی صورت حال ابتر اور پاکستان ڈیفالٹ کے قریب ہے مگر پی ڈی ایم سیاست کی جگہ ریاست کو دیکھتے ہوئے اقدامات کررہی ہے، بجلی اور تیل کی قیمتوں کا کنٹرول میرے پاس نہیں۔
راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شہباز شریف نے تقریر کے آغاز پر ملک بھر میں ہونے والی بارشوں اور اس سے ہونے والے نقصانات پر بات کی۔
انہوں نے کہا کہ طوفانی بارشوں نے بلوچستان ،کراچی سندھ، خیبرپختونخوا اور خصوصاً چترال میں تباہی مچائی، صوبائی حکومتیں اس حوالے سے کام کررہی ہیں ،وفاق بھی اپنا حصہ ڈال رہا ہے ، ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ اس معاملے پر وفاقی حکومت پیچھے نہیں رہے گی اور ہم متاثرہ خاندانوں کوآسانی فراہم کرنے کے لیے امدادی پیکج میں مزید اضافہ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں بڑی عرق ریزی کے ساتھ آئین کی تشریح کی گئی جبکہ دستور پاکستان کی وحدت کی علامت ہے اس نے پورے ملک کو متحد و مضبوط بنایا، یہی آئین پاکستان کو مضبوط اور رہنمائی فراہم کرتا رہے گا، مقننہ، عدلیہ اور ایگزیکٹو کے اختیارات آئین نے متعین کردئیے ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق سب اداروں نے اپنے دائرے میں رہ کر خدمات انجام دینا ہیں، افسوس کی بات ہے اس آئین کے ساتھ کھلواڑ ہوا اور آمریت آتی رہی، اس غیر یقینی اور جمہوریت کا تسلسل ٹوٹنے کی وجہ سے خطے کے ممالک ترقی کے معاملے میں ہم سے اسی وجہ سے آگے نکل گئے اور بنگلا دیشن خود کفیل ہوگیا۔
انہوں نے کہا کہ 75 سال گزرنے کے باوجودعوام پوچھتی ہے کہ کب ملک میں غربت بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا اور ہم انہیں کوئی بھی جواب دینے سے قاصر ہیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ سب جانتے ہیں کہ 2018ء کے الیکشن جھرلو الیکشن تھے، دھاندلی سے پیدا کی گئی حکومت پاکستان پر مسلط کی گئی، سب جانتے ہیں کہ ایک سابق چیف جسٹس کی وجہ سے گنتی رکوائی گئی۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ سابق حکومت نے پونے چار سال کی سابق حکومت کی کارکردگی سب کے سامنے ہے، 20 ہزارارب سے زائد قرض لئے گئے، جی ڈی پی کی شرح منفی کردی گئی ، لاکھوں لوگ بے روزگار اور کئی لاکھ بے گھر ہوگئے، ایسی صورت میں متحدہ اپوزیشن نے ریاست کا سوچتے ہوئے اسے بچانے کا فیصلہ کیا اور فیصلہ کیا کہ سیاست بچتی رہے گی۔
شہباز شریف نے کہا کہ ہم جانتے تھے کہ پاکستان ڈیفالٹ کے قریب ہے، معاشی صورتحال ابتر ہے، کیا ہم چور دروازے سے آئے ؟ووٹ کی طاقت سے آئین و قانون کے مطابق کرپٹ حکومت کو ختم کیا، میاں نواز شریف اور اتحادیوں کے اصرار پر حکومت قبول کی۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ جنرل (ر) مشرف نے اپنے دورِ صدارت میں مجھے وزیراعظم بننے کی پیشکش کی تھی مگر میں نے مسترد کردی تھی، مشرف سے قبل بھی ایک صدر نے کہا تھا کہ صدر بن جاؤ ، مگر میں نے مسترد کردیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ میرے سینے میں کئی راز دفن ہیں، میں 2017ء میں میاں نواز شریف کی آفر کے باوجود پنجاب سے وفاق میں نہیں آیا۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ عدلیہ کا احترام بہت ہے مگر حق کی بات آج نہیں کریں گے تو کب کریں گے، اگر عدالت نے فیصلہ کرنا ہے تو پھر انصاف کی بنیاد پر کرنا ہوگا۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’ہمیں امپورٹڈ حکومت کا طعنہ دینے والا بتائے کہ ٹرمپ سے مل کر ورلڈ کپ کا اعلان ہم نے نہیں کیا تھا، ایک اور بات کہہ دی کہ روس نے پاکستان کو سستا تیل دینے کی آفر کی جس کی روس نے تردید کردی‘۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اب تین ماہ میں کہا جاتا ہے کہ مہنگائی بڑھا دی، تیل و بجلی کی قیمتوں کا کنٹرول میرے پاس نہیں، آج بھی وقت ہے کہ حالات کو کنٹرول کرلیں، آج سچ کو سچ نہ کہا تو اللہ نہ کرے پاکستان شدید مشکلات میں گھر جائیگا۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ 15 سال ایک لاڈلے کو دودھ پلا کر اقتدار میں بٹھایا گیا اور اُسے مکمل سپورٹ دی گئی، وزیراعظم کی بہن کو ایف بی آر سے این آر او دیدیا گیا کوئی نوٹس نہیں دیا گیا، مالم جبہ جس کو جھپہ ڈال لیا نیب نے، بند کردیا گیا کیس ، کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’ہم نے ریاست اور ملک کو سنبھالنے کیلیے حکومت سنبھالی ہے، لڑیں گے مریں گے مگر شکست نہیں مانیں گے‘۔