اسلام آباد – چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے ہیں کہ بے نامی کیخلاف کارروائی احتساب کا مرکز ہے جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا ہے کہ 17 ججز پارلیمانی قانون سازی کو کیسے بدنیتی قرار دے سکتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے نیب ترامیم کیخلاف کیس کی سماعت کی۔
ایڈووکیٹ مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ نیب ترامیم کے ماضی کے اطلاق سے متعلق سوال کیا گیا تھا، قانون سازی کے ماضی کے اطلاق کی آئین میں کوئی ممانعت نہیں ہے، خود جسٹس منیب نے ہائیکورٹ میں اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ ماضی سے اطلاق ہونے والے قوانین کالعدم نہیں قرار دیے جا سکتے۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ ایمنسٹی اسکیم کو نیب آرڈیننس سے استثنی کیوں دیا گیا ہے؟ بے نامی دار سے متعلق نیب ترامیم پر دلائل دیں، بے نامی دار ریفرنسز میں بنیادی کیس آمدن سے زائد اثاثہ جات کا تھا، نیب ترامیم میں بے نامی دار کی تعریف تبدیل کر دی گئی ہے، اب نیب ترامیم سے یہ لازم قرار دیا گیا ہے کہ پہلے پراسیکیوشن ثابت کرے کہ کرپشن کے پیسے سے بے نامی جائیداد بنی یا نہیں، نیب ترامیم سے استغاثہ پر غیر ضروری بوجھ ڈالا گیا ہے، بے نامی کے خلاف کارروائی تو احتسابی عمل کا مرکز ہے، کم از کم یہ تو طے ہونا ضروری ہے اثاثے کرپشن سے تو نہیں بنائے گئے۔
مخدوم علی خان نے جسٹس منصور علی شاہ کے خورشید شاہ کیس کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہر بے نامی دار ٹرانزیکشن کرپٹ ٹرانزیکشن نہیں ہے، استغاثہ اگر کرپشن کے الزامات لگا رہی ہے اس کے پاس کوئی تو شواہد ہونے چاہئیں، کرپشن ثابت کرنے کے لیے صرف بے نامی دار کا الزام لگا دینا کافی نہیں ہے، پراسیکیوشن کو ثابت بھی کرنا ہو گا کہ بے نامی دار ہے یا نہیں، نیب نے لوگوں کے گھروں پر چھاپے مارے اور لاکرز توڑے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ ذرائع آمدن اثاثوں سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں، اگر ذرائع آمدن بھی ملزم نے نہیں بتانے تو یہ جرم ثابت ہی نہیں ہو سکتا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ جو جرائم نیب قانون میں درج ہیں وہ کسی اور قانون کا حصہ نہیں ہیں، نیب ترامیم سے سیکڑوں افراد کو کلین چٹ دی گئی، نیب ترامیم کے بعد 50 کروڑ سے کم پلی بارگین کرنے والا درخواست دیکر صاف شفاف ہوجائے گا، ترامیم میں کہیں نہیں لکھا کہ نیب سے واپس ہونے والا مقدمہ کہاں چلے گا، پچاس کروڑ سے کم والا پیسے واپس لیکر نیب کے اختیار سے ہی نکل گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سنجیدہ معاملہ ہے کہ 49 کروڑ کرپشن والا نیب سے بچ کر آزاد ہوجائے گا۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ نیب کیسز کے لیے 50 کروڑ روپے کی حد اس لئے مقرر کی گئی کیونکہ مختلف عدالتوں کی آبزرویشنز دی جاچکی تھیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہم 1999 سے اب تک پبلک سیکٹر میں دیکھیں تو گرواٹ نظر آئے گی، پی آئی اے کو دیکھ لیں، بجلی کی ترسیلاتی کمپنیوں کو دیکھ لیں، لائن لاسز پورے ملک میں 40 فیصد تک ہیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ 2018 سے 2021 تک نیب تفتیش اور ریفرنسز کی مد میں 18 ارب روپے خرچ ہوئے، قانون کا ماضی سے اطلاق کرنے سے عوامی پیسے ضائع ہوں گے، عوامی پیسے کا ضیاع مفاد عامہ کے تحت آتا ہے، نیب ترامیم سے پلی پارگین کا پورا عمل روک دیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پلی بارگین کے عمل کو پارلیمنٹ نے اس لئے روکا کہ کچھ پلی بارگین کے کیسز میں دباؤ کا پہلو موجود تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے ہم سترہ غیر منتخب ججز پچیس کروڑ عوام کے منتخب پارلیمان کی قانون سازی کو کیسے بدنیتی پر مشتمل قرار دے سکتے ہیں. نیب ترامیم کیخلاف کیس کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔