اسلام آباد – سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت جاری ہے، سپریم کورٹ کا فل بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے تشکیل کردہ فل کورٹ بینچ ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء‘ کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے جسے براہ راست نشر کیا جا رہا ہے۔
آج کی سماعت کا احوال:
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قانون سے چیف جسٹس پاکستان اور سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججز متاثر ہوئے، ایک طرف چیف جسٹس کے اختیارات محدود نہیں تو کم ضرور کیے جا رہے ہیں، دوسری طرف وہی اختیارات سینئر ججوں میں تقسیم کیے جا رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ قانون مستقبل کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے سینئر ججز پر بھی لاگو ہوگا، میں نے محسوس کیا ہے کہ انہیں سماعت کرنے والے بینچ کا حصہ نہیں بننا چاہیے لیکن چونکہ اس نے تمام ججوں کو متاثر کیا ہے اس لیے یہ مناسب سمجھا گیا کہ فل کورٹ کیس کی سماعت کرے۔
سپریم کورٹ میں پیش وکلا سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے زور دیا کہ وہ ایسے نکات پر بات کریں جو کیس سے متعلق ہوں، انہوں نے کہا کہ ہم آج کیس کو نمٹانے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں، سپریم کورٹ میں پہلے ہی بہت سے کیس زیر التوا ہیں، ایک کیس کو ہی لے کر نہیں بیٹھ سکتے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اگر وکلا اضافی دلائل دینا چاہیں تو عدالت میں تفصیلی تحریری جواب جمع کروا سکتے ہیں۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے ذریعے آئین کی نفی کی گئی ہے، وکیل اکرام چودھری:
درخواست گزار نیاز اللہ نیازی کے وکیل اکرام چودھری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ سادہ اکثریت سے آئین کے آرٹیکل نہیں بدل سکتی لہٰذا یہ شق بھی آئین سے متصادم ہے، وکیل اکرام چودھری نے عدالت میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق خبر پڑھ دی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ اپنے دلائل خبروں کی بنیاد پر دے رہے ہیں، آپ سینئر وکیل ہیں کیا اب خبروں کی بنیاد پر دلائل دیں گے؟۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ قوم کے نمائندے نہیں درخواست گزار کے وکیل ہیں، آپ عدلیہ کی آزادی کی بات کر رہے ہیں، اس کو لوگوں کے نفع و نقصان سے جوڑ نہیں رہے، عدالتی آزادی کا ہمیں ہر حالت میں دفاع کرنا چاہیے، اگر عدالتی آزادی نہیں ہوگی تو عوام وخاص کے مسائل کا آزادانہ تعین نہیں کیا جاسکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانونی دلائل دیجیے، یہ دلیل دیں کہ پارلیمنٹ نے کیسے عدلیہ کے حق کو سلب کیا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اب قانون بن چکا ہے، پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتی تھی یا نہیں اس بحث میں نہیں جانا چاہیے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آئین سے متصادم ہے یا نہیں یہ بتائیں۔
وکیل اکرام چودھری کی جانب سے حسبہ بل کیس کا حوالہ دیا گیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حسبہ بل قانون بنا ہی نہیں تھا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ قانون بن چکا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اکیسویں ترمیم کیس میں عدالت کہہ چکی ہے کہ آئینی ترمیم کا جائزہ بھی لیا جا سکتا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر اگر آئینی ترمیم سے آتا تب بھی فیصلہ آپ کے راستے میں رکاوٹ تھا، جب آپ عدالت کی آزادی کی بات کرتے ہیں تو کیا یہ آزادی ازخود نایاب چیز ہے یا یہ لوگوں کیلئے ہوتی ہے؟۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر کل پارلیمنٹ قانون بناتی ہے کہ بیوہ عورتوں کے کیسز کو ترجیح دیں تو کیا اس قانون سازی سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہو گی؟ قانون سازی اگر لوگوں کو انصاف دینے کا راستہ ہموار یا دشوار کر رہی ہے تو یہ بتائیں، کیا ہماری آزادی خود ہی کافی ہے یا اس کا تعلق کسی اور سے بھی ہے؟۔
قانون سازی سے پہلے مکمل طریقہ کار نہیں اپنایا گیا، جسٹس اعجازالاحسن
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کرنے سے پہلے اس کا مکمل طریقہ کار اپنانا چاہیے تھا جو نہیں اپنایا گیا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انصاف تک رسائی کا حق دینا آئین کی بنیاد ہے، کیا پارلیمنٹ عوام کی بہتری کیلئے ہونے والی قانون سازی کرنے کیلئے بااختیار نہیں؟۔
وکیل اکرام چودھری نے کہا کہ آرٹیکل 8 کہتا ہے ایمرجنسی میں آئینی شقیں معطل کی جا سکتی ہیں، اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئینی شق کا کیا تعلق ہے جب قانون بن چکا؟۔
بعدازاں درخواست گزار نیاز اللہ نیازی کے وکیل اکرام چودھری نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ باقی دلائل تحریری طور پر جمع کروا دوں گا۔
وکیل حسن عرفان کے دلائل شروع:
وکیل حسن عرفان نے اپنے دلائل شروع کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ سوال قانون سازی کی اہلیت کا ہے، عدلیہ ریاست کے 3 ستونوں میں سے ایک ہے، بل کو صدر مملکت کی منظوری کیلئے بھیجا گیا تھا جس پر انہوں نے اعتراض اٹھایا، اس سے بل کی منظوری پر پارلیمنٹ کے اندر تنازع کا اشارہ ملتا ہے۔
وکیل نے استدلال کیا کہ قانون سپریم کورٹ کے کام کی جگہ لے رہا ہے اور اسے کمیٹی کو منتقل کر رہا ہے جسے عدالتی فعل نہیں سمجھا جا سکتا اور یہ ایک انتظامی فعل ہوگا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ مؤقف اپنا رہے ہیں کہ انفرادی طور پر چیف جسٹس اس طاقت کو استعمال نہیں کر سکتے اور یہ اختیار خصوصی طور پر سپریم کورٹ کو حاصل ہے جس کا مطلب ہے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے تمام ججز؟۔
اس پر حسن عرفان نے کہا کہ اختیارات عدالت عظمیٰ کو دیے گئے جس نے سپریم کورٹ رولز بنائے اور پھر سپریم کورٹ نے اپنا مکمل اختیار چیف جسٹس کو دے دیا۔
اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے نوٹ کیا کہ آرٹیکل 191 نے سپریم کورٹ کو ایسے قوانین بنانے کا اختیار دیا جو انتظامی نوعیت کے ہوں، بینچوں کی تشکیل اور مقدمات کا تعین انتظامی اختیار ہے، قانون کیا کرتا ہے، یہ چیف جسٹس سے اختیار لیتا ہے اور اسے مزید 2 ججوں میں تقسیم کرتا ہے، انتظامی اختیارات استعمال کرتے ہوئے عدالت اپنے اختیارات تفویض کر سکتی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اس طاقت کا استعمال آرٹیکل 191 کے تحت کیا گیا ہے جو آئینی مینڈیٹ ہے، لہٰذا جہاں آئینی مینڈیٹ سپریم کورٹ کو رولز بنانے کا اختیار دیتا ہے وہاں ان قوانین کے ساتھ ایک خاص تقدس وابستہ ہوتا ہے، آرٹیکل 191 کہتا ہے کہ آئین اور قانون کے تابع سپریم کورٹ عدالتی امور اور طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کیلئے رولز بنا سکتی ہے۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع:
وکیل حسن عرفان نے کہا کہ آئین پر عمل کرنا پارلیمنٹ کا بھی فرض ہے جس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا اس پر کوئی دو رائے ہو سکتی ہیں؟۔
چیف جسٹس عیسیٰ نے روشنی ڈالی کہ وکلا اور سول سوسائٹی نے ماضی میں آرٹیکل 184(3) کے زیادہ استعمال پر اعتراض کیا تھا جس پر وکیل نے استدلال کیا کہ جب بھی نیا چیف جسٹس آئے گا، فیصلوں اور بینچوں کے حوالے سے بے یقینی ہوگی، اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم اگلے مارشل لا کا دروازہ کھول دیں؟۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ قانون کا تعلق لوگوں کے فائدے سے ہے یا ان کے نقصان سے ہے نہ کہ چیف جسٹس کے فائدے سے۔
جسٹس منیب اختر نے نوٹ کیا کہ سپریم کورٹ کو اپنے ماضی کے فیصلوں کو درست کرنے کیلئے اپیل کے حق کی ضرورت نہیں ہے، ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ کیا قانون کا سیکشن 3 آرٹیکل 184(3) سے براہ راست متصادم ہے؟۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پھر وکیل سے پوچھا کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کے بارے میں قانون سازی کر سکتی ہے، اس پر حسن عرفان نے نفی میں جواب دیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب تک آپ تسلیم نہیں کرتے، اصلاح نہیں ہو سکتی، انہوں نے نوٹ کیا کہ کسی ایک بینچ کے فیصلے کو ترجیح دینا آئین کی خلاف ورزی کے مترادف ہو سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر پارلیمنٹ کہتی ہے کہ مارشل لاء کی توثیق غلط ہے تو کیا ایسا نہیں ہونا چاہیے؟، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ توہین عدالت کے خلاف بھی کیا آئین کے آرٹیکل 204 میں اپیل کا حق نہیں ہونا چاہیے تھا؟۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سوال یہ ہے اپیل کا حق دینے کا اختیار کس کا ہے، جب آئین نے آرٹیکل 184 تین میں اپیل کا حق نہیں دیا تو یہ آئینی منشا نہیں تھی، اگر یہ منشا اب ہے کہ آرٹیکل 184 تین میں اپیل کا حق دیا جائے تو اس کا واحد حل آئینی ترمیم کے ذریعے ہے، ایسے تو پارلیمنٹ ایک قانون کے ذریعے ایک کے بجائے 4 اپیلوں کا حق دے دے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کو آئین میں ترمیم کی اجازت دی تھی، کیا آپ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں؟، اس پر حسن عرفان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے سے متفق نہیں۔
فرد واحد نے ہی ہمیشہ ملک کی تباہی کی ہے، چیف جسٹس:
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا پارلیمان نے اچھا قانون نہیں بنایا کہ ہم اس فیصلے کو واپس لے سکیں؟، ججز نے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آئین کے ساتھ کھلواڑ کی اجازت دی، سپریم کورٹ بار کہتی تھی کسی ڈاکٹرائن کی وجہ سے مقدمات مقرر نہیں ہوتے، کیا ڈاکٹرائن آئین اور قانون کے مطابق تھی؟۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کہتے ہیں بس فرد واحد کا اختیار کم نہ ہو، فرد واحد نے ہی ہمیشہ ملک کی تباہی کی ہے، مارشل لاء لگتا ہے تو ملک فرد واحد ہی چلاتا ہے، ہم آپس میں 3 لوگ فیصلہ کریں یا 5 کریں آپ کو کیا مسئلہ ہے؟، پارلیمان کو احترام دینا ہوگا۔
فریقین نے عدالت میں جوابات جمع کروا دیے:
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق درخواستوں کی سماعت سے قبل فریقین نے سپریم کورٹ میں تحریری جوابات جمع کروا دیے، اٹارنی جنرل، مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) نے ایکٹ کو برقرار رکھنے جب کہ تحریک انصاف سمیت دیگر درخواست گزاروں نے اپنے اپنے تحریری جوابات میں ایکٹ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے۔
گزشتہ سماعت:
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی گزشتہ سماعت بھی ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر کی گئی تھی، عدالتی حکم پر جمع کروائے گئے سوالات کے جوابات میں حکومت کا کہنا ہے کہ 8 رکنی بینچ کا قانون کو معطل کرنا غیر آئینی تھا، سابق چیف جسٹس نے قانون کو معطل کر کے بینچ تشکیل دے کر فیصلہ دیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کے آخر میں حکم نامہ لکھواتے ہوئے کہا تھا کہ بینچوں کی تشکیل کیلئے سینئر ترین جج سردار طارق مسعود اور جج اعجازالاحسن سے مشاورت کر رہے ہیں اور یہ ہم اپنے طور پر کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے فریقین سے کہا کہ وہ اپنے دلائل مختصر اور جامع رکھیں اور سماعت کی تاریخ 3 اکتوبر مقرر کر دی تھی، جس پر درخواست گزار کے وکیل خواجہ طارق رحیم نے اتفاق کیا۔
حکم نامے میں چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء کی سماعت کیلئے فل کورٹ تشکیل دینے کیلئے دائر کی گئی درخواست فل کورٹ کی تشکیل کی بنیاد پر نمٹا دی گئی ہیں۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ اس کیس کی اب تک 1 سماعت جبکہ لارجر بینچ 5 سماعتیں کر چکا ہے، لارجر بینچ 13 اپریل کو پہلی سماعت میں ہی قانون پر حکم امتناع دے چکا ہے، 2 مئی، 8 مئی، یکم جون اور 8 جون کو بھی کیس سماعت کیلئے لگا تھا۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیا کہتا ہے؟
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت ازخود نوٹس اور بینچ تشکیل کا اختیار 3 سینئر ججز کی کمیٹی کو دیا گیا ہے، کیس سماعت کیلئے مقرر کرنے اور درخواستیں لینے کا اختیار بھی کمیٹی کو دیا گیا ہے۔
مزید برآں اس ایکٹ کے تحت متاثرہ فریق کو ایک ماہ میں اپیل کا حق اور وکیل تبدیل کرنے کی اجازت بھی دی گئی ہے جبکہ ازخود نوٹس کے مقدمات میں ماضی کے فیصلوں پر بھی اپیل کا حق دیا گیا ہے۔