اسلام آباد – جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سپریم کورٹ کے جج کے حیثیت سے استعفیٰ دے دیا۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اپنے استعفے میں کہا کہ میرے لیے اعزاز کی بات تھی کہ میں لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا جج رہا، وہ حالات جو عوامی علم میں ہیں اور پبلک ریکارڈ پر ہیں، ایسے حالات میں میرے لیے بطور جج سپریم کورٹ عہدے پر برقرار رہنا ممکن نہیں، بطور جج سپریم کورٹ عہدے سے استعفیٰ دیتا ہوں۔
جسٹس مظاہر نقوی نے اپنا استعفیٰ صدر مملکت کو بھجوا دیا ہے۔ صدر مملکت کی جانب سے منظوری کے بعد سپریم کورٹ میں دو ججز کی آسامیاں خالی ہو جائیں گی۔
استعفے کے بعد جسٹس مظاہر نقوی اب پینشن اور دیگر مراعات کے حقدار ہوسکتے ہیں، اگر سپریم جوڈیشل کونسل جسٹس مظاہر نقوی کو مس کنڈکٹ پر ہٹاتی تو پینشن اور دیگر مراعات سے بھی ہاتھ دھونا پڑتے۔
جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف جوڈیشل کونسل میں 10 شکایات زیر التوا تھیں جن میں جسٹس مظاہر نقوی پر مس کنڈکٹ کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کو دو شوکاز نوٹس جاری کیے تھے جبکہ جسٹس مظاہر نقوی نے کونسل کی کارروائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے جسٹس مظاہر نقوی کی کونسل کارروائی روکنے کی استدعا مسترد کر دی تھی۔
شوکاز نوٹس کا تفصیلی جواب:
جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کو آج شوکاز نوٹس کا تفصیلی جواب بھی جمع کرایا تھا جس میں انہوں نے خود پر عائد الزامات کی تردید کی تھی۔
جواب میں کہا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کسی جج کے خلاف معلومات حاصل تو کر سکتی ہے لیکن کسی کی شکایت پر کارروائی نہیں کر سکتی اس لیے سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری احکامات رولز کی توہین کے مترادف ہیں کیونکہ رولز کے مطابق کونسل کو معلومات فراہم کرنے والے کا کارروائی میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔
جسٹس مظاہر نقوی نے اٹارنی جنرل کی بطور پراسیکیوٹر تعیناتی پر بھی اعتراض کیا۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ کونسل میں ایک شکایت کنندہ پاکستان بار کونسل بھی ہے اور اٹارنی جنرل شکایت کنندہ پاکستان بار کونسل کے چیئرمین ہیں، بار کونسلز کی شکایات سیاسی ایماء پر دائر کی گئی ہیں۔
شوکاز نوٹس کے تفصیلی جواب میں جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ پاکستان بار کی 21فروری کو اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات ہوئی اور شہباز شریف سے ملاقات کے روز ہی پاکستان بار کونسل نے شکایت دائر کرنے کی قرارداد منظور کی، شوکاز کا جواب جمع کرانے سے پہلے ہی گواہان کو طلب کرنے کا حکم خلاف قانون ہے اور یہ الزام سراسر غلط ہے کہ مجھ سے کوئی بھی شخص بآسانی رجوع کر سکتا ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے جواب میں مزید کہا کہ غلام محمود ڈوگر کیس خود اپنے سامنے مقرر کر ہی نہیں سکتا تھا یہ انتظامی معاملہ ہے اور غلام محمود ڈوگر کیس میں کسی قسم کا کوئی ریلیف نہیں دیا تھا۔ انہوں نے واضح کیا کہ لاہور کینٹ میں خریدا گیا گھر ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کردہ ہے اور ایس ٹی جونز پارک میں واقع گھر کی قیمت کا تخمینہ ڈی سی ریٹ کے مطابق لگایا گیا تھا۔
تفصیلی جواب میں جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور نہ ہی مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوا، گوجرانوالہ میں خریدا گیا پلاٹ جج بننے سے پہلے کا ہے اور اثاثوں میں ظاہر ہے، زاہد رفیق نامی شخص کو کوئی ریلیف دیا اور نہ ہی ان کے بزنس سے کوئی تعلق ہے، میرے بیٹوں کو اگر زاہد رفیق نے پلاٹ دیا ہے تو اس سے میرا کوئی تعلق نہیں، دونوں بیٹے وکیل اور 2017 سے ٹیکس گوشوارے جمع کراتے ہیں۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں طے شدہ اصول ہے کہ بچوں کے معاملے پر جوڈیشل کونسل کارروائی نہیں کر سکتی، پارک روڈ اسلام آباد کے پلاٹ کی ادائیگی اپنے سیلری اکاؤنٹ سے کی تھی، الائیڈ پلازہ گوجرانوالہ سے کسی صورت کوئی تعلق نہیں ہے۔ جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل سے شکایات خارج اور کارروائی ختم کرنے کی استدعا کی۔