اسلام آباد – شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ روس کے دورے سے قبل امریکا کی جانب سے ایک اعلی سطح کا رابطہ کیا گیا تھا، اور پاکستان سے امریکا نے معصومانہ سوال کیا تو ہم نے موٴدبانہ جواب دے دیا، پاکستان کا مؤقف جوں کا توں رہا اور کوئی دباوٴ قبول نہیں کیا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہوزیراعظم روسی صدر کی دعوت پر روس گئے تھے، کسی بھی پاکستانی وزیر اعظم کا گزشتہ 23 سالوں میں پہلا دورہ روس تھا، جس میں وزیراعظم عمران خان کی روسی صدر پیوٹن سے ملاقات ہوئی، جو ساڑھے 3 گھنٹے جاری رہی، ملاقات میں پاک روس تعلقات اور توانائی کے شعبہ میں تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا، خطے بالخصوص مقبوضہ کشمیر اور افغانستان کے امن پر بات ہوئی، اسلاموفوبیا پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ صدر پیوٹن کے ساتھ ملاقات میں دو طرفہ تعلقات کا جائزہ لیا گیا، پاکستان، روس کے دو طرفہ تعلقات میں بہتری آئی ہے، وزیراعظم سے روسی نائب وزیراعظم اور وزیر توانائی کی بھی ملاقات ہوئی، نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن پر گفتگو ہوئی۔ ہم نے روس سے گیس کی خریداری پر بات چیت کی، گوادر میں ایل این جی ٹرمینل لگانے میں روس نے دلچسپی کا اظہار کیا، ہم نے روس سے گیس کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی، ہمارا فوکس انرجی اور تجارت پر رہا۔ وزیر اعظم نے پاکستان اور روسی تاجروں کے فورم سے بات چیت کی، روسی مسلمانوں کے وفد سے بھی بات چیت ہوئی، وزیر اعظم نے دوسرے جنگ عظیم میں جانیں دینے والے گمنام روسی فوجیوں کی یاد گار پر حاضری دی، پھول رکھے، پاکستان نے تمام نشستوں میں روس کے ساتھ طویل مدت اور کثیر الجہتی تعاون پر توجہ مرکوز کی۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ روس کے ساتھ افغانستان کے حوالے سے سوچ میں تبدیلی آئی ہے، افغانستان کے حوالے تفصیلی بات چیت ہوئی، ملاقاتوں میں مارچ کے آخر میں چین میں مزید دو پاک روس ملاقاتوں پر اتفاق کیا گیا، مستقبل قریب میں پاک روس مشترکہ مقاصد کو عالمی فورمز پر اجاگر کیا جائے گا، جنوبی ایشیا میں عدم توازن پر پاکستان کی تشویش پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔
وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے یوکرائن کی صورت حال کا بھی ذکر کیا، یوکرائن کی صورت حال کی ایک طویل تاریخ ہے، پاکستان ہمیشہ سفارت کاری سے مسائل کے حل پر زور دیتا آیا ہے، روس جانے سے پہلے روس یوکرائن صورتحال کا جائزہ لیا گیا، اس نشست میں 4 سابق سفارت کار بھی موجود تھے، دورے پر تفصیلی مشاورت کے بعد اپنے راستے کا تعین کیا اور آگے بڑھے، مجموعی وزڈم کے تحت ہم نے فیصلہ کیا کہ ہمارا پروگرام جوں کا توں رہے گا، دورے کے بعد ہمارے اطمینان میں اضافہ اور سفارتی اسپیس ملا، ہم نے افغان صورت حال کے حوالے سے موقع کا استعمال کیا، ہماری خارجہ پالیسی کا تقاضا علاقائی رابطہ کاری کو بڑھانا ہے اور روس اس رابطہ کاری کا اہم حصہ ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یوکرائن کے دارالحکومت کیف میں سفارتخانہ ہم وطنوں سے مسلسل رابطے میں ہے، سفارتخانے کو پاکستانیوں، خصوصا طلبہ کی محفوظ علاقوں کی طرف منتقلی کی ہدایات دی ہیں، سفارتخانے کو پولینڈ کے قریب ٹرنوپل منتقل کیا ہے، یوکرائن پاکستانی طالب علم کی ہلاکت کی خبر میں کوئی صداقت نہیں۔
وزیرخارجہ نے کہا کہ روس کے دورے سے قبل امریکا کی جانب سے ایک اعلی سطح کا رابطہ کیا گیا تھا، اور پاکستان سے امریکا نے معصومانہ سوال کیا تو ہم نے موٴدبانہ جواب دے دیا، پاکستان کا مؤقف جوں کا توں رہا اور کوئی دباوٴ قبول نہیں کیا، پاکستان نے واضع کیا ہے کہ کسی کیمپ سیاست کا حصہ نہیں بننا، پاکستان اپنی پالیسیز کے مطابق غیر جانبدار ہے، ہم نے جانبدار پالیسی کی بہت بڑی قیمت چکائی ہے، اب وہ پالیسیز اور نہیں چل سکتیں، ماسکو میں کچھ سیاسی لوگوں کی گھبراہٹ کے ٹویٹس دیکھے، وزیر اعظم نے اعتماد کے ساتھ پاکستان کا موقف پیش کیا اور ہمارے دورے کا فوکس یوکرائن کی صورتحال کو سامنے رکھ کر نہیں کیا گیا، روس کے ساتھ ہمارے تعلقات کا گراف مسلسل اوپر جا رہا ہے، ہمارا دورہ دوطرفہ تعلقات کے تناظر میں تھا، ہمارے سفارتی تعلقات یوکرائن اور روس دونوں کے ساتھ ہیں، ہمارے روس کے ساتھ کثیر الجہتی بالخصوص دفاعی تعلقات ہیں، پچھلے کچھ برسوں میں روس کے ساتھ دوطرفہ دفاعی تعلقات بہت مضبوط ہوئے ہیں، روس پر پابندیاں ابھی پائپ لائن میں ہیں، کچھ کا اعلان ہوا ہے کچھ کا نہیں، مگر پاکستان اپنا مفاد دیکھے گا۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ فیٹف پر بھی روسی وزیرِ خارجہ سے تفصیلی بات چیت ہوئی ہے، روس نے پاکستان کے اقدامات کی تعریف کی، اور کہا کہ فیٹف فورم کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہیں ہونا چاہئیے، ہمارے دور میں منی لانڈرنگ کے خلاف بہترین اقدامات لیے گئے ہیں، آج کے وزیرِ اعظم کے سوئس، لندن اور کہیں بھی جائیدادیں اور اکاؤنٹس نہیں، عمران خان روس ملک کا مقدمہ لڑنے گئے تھے، اپنے ذاتی مفاد کا نہیں، ہماری صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کہ اپوزیشن والے کس سے ملتے ہیں، شوق سے ملیں، بلاول اور شہباز شریف کو تفصیلی جواب لاڑکانہ میں ملے گا۔