پشاور – پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئر مین عمران خان نے کہا ہے کہ نیوٹرلزنے طے کرنا ہے وہ چوروں کے ساتھ ہیں یا حقیقی آزادی کیساتھ۔ ہماری تحریک الیکشن کی تاریخ ملنے تک جاری رہے گی۔ پشاور میں کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ عوام امپورٹڈ حکومت کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں، ہمارے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر جیلوں میں ڈالا گیا، گھر کی چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا، کریک ڈاؤن ایسے کر رہے ہیں جیسے ہم قوم کے مجرم ہیں یا غداری کی ہے، ساڑھے تین سالوں میں فضل الرحمان دھرنے کیلئے آتا تھا، ہم نےنہیں روکا، مریم نے بھی کوئی لانگ مارچ کیا تھا جس کا کسی کو پتہ ہی نہیں چلا، ہم نےانہیں کبھی نہیں روکا کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ ان کا جمہوری حق ہے۔
انہوں نے کہا کہ پولیس، نیوٹرل اور بیوروکریسی سمیت سب کا امتحان ہے، قوم کو سازش کا پتہ ہے، غلامی کو کبھی قبول نہیں کرے گی، کل پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جلوس لے کر اسلام آباد نکلوں گا، یہ ملک کی آزادی کی جنگ ہے، نیوٹرلزنےطے کرنا ہے وہ چوروں کے ساتھ ہیں یا حقیقی آزادی کیساتھ۔ ہماری تحریک الیکشن کی تاریخ ملنے تک جاری رہے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ جتنے بھی احتجاج کیے آئین اور قانون کے اندر کیے، کبھی پولیس اور اپنی عوام کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا۔ امید ہے ہمارے یوتھ کو اپنی ذمے داری کا احساس ہے۔ کل ہماری اٹیک فورس کی ذمہ داری راستے کی رکاوٹیں ہٹانے کی ہیں۔ کل رات سے پنجاب اور سندھ میں کریک ڈاون کیا جارہا ہے۔ پُرامن احتجاج کر رہے ہیں، اس کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا۔ اب یہ نیوٹرلز، پولیس، عدلیہ، بیوروکریٹس سب کا امتحان ہے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں جوبھی عوام کے سمندر کو روکنے کی کوشش کریگا وہ بہہ جائے گا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ امریکی غلاموں اورپاکستان کےبڑےمجرموں کوہم پرمسلط کیا گیا ہے انہوں نےپولیس کو استعمال کرکے ہمارےلوگوں کوجیلوں میں ڈالا رات کی تاریکی میں سندھ اور پنجاب میں کریک ڈاؤن کیا جسٹس (ر) ناصرہ اقبال کےگھرپردھاوا بول، چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا ایسےکریک ڈاؤن کیا گیا جیسے ہم کوئی دہشت گردی کر رہےہیں ہمارےدورمیں فضل الرحمان نے بھی دھرنا دیا تھا نہیں روکا بلاول بھٹو بھی کانپیں ٹانگنے والی مارچ لے کر آیا تھا۔
اس سے قبل پریس کانفرنس کرتے ہوئے پی ٹی آئی چیئر مین عمران خان نے حکومت کی طرف سے آزادی مارچ روکے جانے کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے لیے فیصلہ کن وقت ہے، ادھر سے ہم کدھر جاتے ہیں وہ فیصلہ کرے گا کہ ہم کس طرح کے پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ فاشسٹ حکومت جس کی ہمیں ساری تاریخ پتا ہے انہوں نے ہمیشہ ایسی چیزیں کی ہیں۔ یہ دو خاندان 30 سال سے پاور میں رہے ہیں اور ہمیں ان کی 30 سالہ تاریخ پتا ہےان کے اور فوجی آمر میں کوئی فرق نہیں، یہ وہی حربے استعمال کرتےہیں جو آمر استعمال کرتے ہیں۔ یہ اتنے ہی غیر جمہوری ہیں، انہوں نے جمہوریت کی اسی طرح دھجیاں اڑائی ہیں جو آمروں نے اڑائی ہیں، جب یہ اپوزیشن میں ہوتےہیں تو انہیں جمہوریت یاد آجاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 1985 سے پنجاب میں شریف خاندان کے آنے سے میں نے ان کو وہ حرکتیں کرتے دیکھا ہے جو فوجی آمر کرتے ہیں۔ میرا پہلا سوال یہ ہے ہمارے دور حکومت کے ساڑھے تین سال میں کتنی دفعہ یہ سڑکوں پر نکلے۔ کتنی دفعہ انہوں نے حکومت گرانے کی مارچ کی۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پہلے تو وہ سمجھے ہوں گے کہ ڈاکو آئے ہیں، وہ ہتھیار استعمال کرنا جانتے ہیں، انہوں نے استعمال کیا۔ سب یہی کرتے ہیں کہ میرے گھر میں کوئی دیولا پھلانگ کر آتا ہے تو میں بیوی بچوں کی حافظت کروں۔ کونسا بحران آ گیا تھا کہ رات کے اندھیرے میں لوگوں کے گھروں پر حملہ کیا۔ شکر کریں کہ کسی اور جگہ کوئی حادثہ نہیں ہوا۔ یہ اس طرح کے ہتکھنڈے استعمال کیے جارہے ہیں۔ میری 26 سالہ سیاسی تاریخ ہے مجھے کوئی بتائے کہ میں نے کوئی قانون توڑا ہو؟ کوئی انتشار پھیلایا ہو؟ ہم نے 126 دن کے دھرنے میں ہم نے کسی قسم کی لڑائی کی ہو؟ کوئی مجھے بتائے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین نے کہا کہ میں رات سے دیکھ رہا ہوں کہ اپنے لوگوں سے جو مجھے پیغامات آرہے ہیں میں آج سب سے سوال پوچھ رہا ہوں کہ یاد رکھیں فیصلہ ہوگا کہ کس طرح کا پاکستان بننا ہے ۔ یہ اب فیصلہ ہوگا۔ ہم دو طرف جاسکتے ہیں کہ ہم اس کو وہ پاکستان بنانا چاہتے ہیں جو قانون کی حکمرانی ماننے والے عظیم لیڈر قائداعظم یا علامہ اقبال پاکستان کو بنانا چاہتے تھے یا پھر ہم ان چور ڈاکوؤں کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں،جس کی 60 فیصد کابینہ مجرموں پر مشتمل ہے۔ وزیر اعظم اور اس کے بیٹے کو سزا ہونی تھی۔ 24 ارب روپے کے کسیز کی سزا ہونی تھی اور آج یہ لوگ ملک کے فیصلے کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا میرا سوال سب سے ہے، وہ ادارے جنہوں نے ملک کے فیصلے کرنے ہیں، میں اپنی عدلیہ سے کہتا ہوں یہ آج آپ کا ٹرائل ہے۔ ساری قوم آپ کے فیصلوں کی طرف دیکھے گی۔ اگر آپ نے اس وقت اس ملک کی جمہوریت کو تحفظ نہ دیا۔ جب ہم کہہ رہے ہیں کہ پُرامن احتجاج کریں گے اور یہ ہمارا جمہوری حق ہے اور ہم اس لیے کرنے جارہے ہیں کہ باہر کی سازش جو کہ مراسلہ سب کو تقسیم کیا۔ صدر نے چیف جسٹس کو انکوائری کا کہا۔ قومی سلامتی کونسل میں ثابت ہوا کہ بیرونی مداخلت ہوئی۔ ان لوگوں کو لایا گیا ہے جو اس ملک کے 30 سال کے مجرم ہیں۔ 30 سال سے یہ لوگ ملک کو لوٹ رہے ہیں تو میرا سوال ہے کہ کیا ہمیں یہ اتنا غلام سمجھتے ہیں کہ اتنا بڑا ظلم ہو قوم کے ساتھ اور ہمیں اسلام آباد میں احتجاج تک کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
انہوں نے سوال پوچھا کہ کیا جب بلاول اسلام آباد میں کانپیں ٹانگنے والی مارچ کے لیے آیا تھا کیا کسی کو پکڑا گیا؟ کیا کسی کے گھر پر ریڈز کی گئیں؟ فضل الرحمٰن نے حکومت آنے کے چند ماہ بعد ہی دھرنا دیا تھا؟ بلکہ ہم نے تو کہا تھا کہ ان کی مدد کرتے ہیں۔ انہیں کہا کہ سی ڈی اے ان کی مدد کرے گا اگر ان کو کسی چیز کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کبھی اس طرح کی حرکت کی ہے، یہ جو آج ہو رہا ہے میں اپنی عدلیہ سے بڑے ادب سے پوچھ رہا ہوں کہ اگر آپ نے اس کی اجازت دی جو یہ کررہے ہیں ، ملک بند کردیا، رکاوٹیں کھڑی کردیں، اور یہ حراساں کر رہے ہیں، خواتین کا خیال نہیں کر رہے شریف لوگوں کے گھروں پر حملے کررہے ہیں جنہوں نے کبھی کوئی جرم نہیںکیا۔ کیا ہماری عدلیہ اس کی اجازت دے گی؟ بڑے افسوس سے کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ نے اجازت دی تو اس ملک میں عدلیہ کی ساکھ ختم ہو جائے گی۔ اس کا مطلب یہاں جمہوریت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ وکیلوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ جس طرح وہ پاکستان کی جمہوریت کے تحفظ کے لیے کھڑے ہوئے ہیں لیکن وہ بار ایسوسی ایشنز جو اس کی مذمت نہیں کررہیں۔ مجرموں کی کابینہ نے جو غیر قانونی فیصلہ کیا ہے اس وقت کسی کے لیے نیوٹرل رہنے کی گنجائش نہیں ہے۔ نیوٹرل رہنے کی قرآن میں اللہ اجازت ہی نہیں دیتا۔ آپ نے فیصلہ کرنا ہے یا آپ اچھائی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ امر بالمعروف۔ یا آپ دوسری طرف کھڑے ہیں۔ اللہ نے آپ کو اجازت نہیں دی کہ بیچ میں بیٹھ جائیں۔ بیچ میں بیٹھنے کا مطلب مجرموں کی مدد ہے۔ جو نیوٹرل کہتے ہیں ان کو واضح کرنا چاہتا ہوں، آپ نے پاکستان کی سالمیت، پاکستان کی خوداری کی حفاظت کا حلف لیا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ جو سابق فوجیوں کے ساتھ کررہے ہیں یہ ساری قوم کو سمجھنا چاہیے کہ وہ آپ کے اوپر بھی ججمنٹ آنے والی ہے۔ اگر ملک تباہی کی طرف جاتا ہے تو آپ اتنے ہی بڑے زمہ دار ہونگے۔ ہم نے واضح طور پر کہا کہ دیکھیں ملک کے حالات برے ہیں۔ ان لوگوں نے ڈیڑھ مہینے میں دیکھتے دیکھتے معیشت تباہ کردی۔ روپیہ تیزی سے نیچے گرا۔ سٹاک ایکسیچنج کریش کرگیا۔ ہر روز مہنگائی بڑھتی جارہی ہے۔ روپے کی قدر کم ہرنے کا جیسے ہی اثر پڑے گا مہنگائی کی نئی لہر آئے گی اس کا ہر چیز پر اثر پڑے گا۔ جب تک یہ حکومت قائم ہے قوم کو اندھیرا نظر آرہا ہے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ اس کا ایک ہی جمہوری حل ہے کہ فوری طور پر انتخابات کروائیں۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا حل نہیں ہے۔ انتخابات کے علاوہ کچھ بھی کریں گے ملک نیچے ہی جائے گا۔ اور مجھے خوف آرہا ہے کہ ہم ہفتوں میں سری لنکا جیسی صورتحال کی طرف جارہے ہیں۔ ہمارے راستے میں ان چوروں کو بٹھا دیا ہے، انہوں نے اقتدار میں آکر ملک کی خدمت نہیں کرنی بلکہ اپنے اوپر کرپشن کے کسیز کو ختم کرنا ہے۔ انہوں نے نیب کو ختم کرنا ہے۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کو اپنا غلام بنایا ہوا ہے۔ ان لوگوں نے تیاری کرنی ہے کہ جب بھی انتخابات ہوں دھاندلی کرکے جیت سکیں۔ جو انہوں نے ہمیشہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس لئے نیوٹرلز، ججز، وکلاء سمیت سب کو پیغام دیتا ہوں کہ یہ فیصلہ کُن وقت ہے۔ اور میں صحافیوں کو سلیوٹ کرتا ہوں جو آج کھڑے ہوئے ہیں اس ملک کی خودداری اور حق اور سچ کے لیے جن کے پیچھے آج ایف آئی آر کاٹی جارہی ہیں، جن کو غدار کہا جارہا ہے قوم ان کو بڑی دیر سے جانتی ہے سب لوگ ان کی ساکھ کو مانتے ہیں۔ صحافیوں کو ڈرایا جارہا ہے۔ آج میں ان صحافیوں سے پوچھتا ہوں جو ہمارے ساڑھے تین سال کے دور میں کہتے ہیں کہ ہم آزادی رائے پر پابندی لگا رہے ہیں۔ ہم پر جتنی تنقید ہوئی پاکستان کی تاریخ میں اتنی کسی پر نہیں ہوئی۔ اور مجھے یہ بھی پتا ہے کہ باہر سے پیسہ کدھر آیا اور کن کن میڈیا ہاؤسز اور صحافیوں پر لگا، جنہوں نے ہمارے خلاف پوری مہم چلائی کہ ملک تباہ ہوگیا، معیشت تباہ ہوگئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اعداد وشمار تو جھوٹ نہیں بولتے۔ کورونا کے باوجود تیسرے سال میں 5.6 فیصد پر ترقی ہوئی اور اس سال معاشی نمو 6 فیصد ہے۔ آپ بتادیں کہ پاکستان کی تاریخ میں کتنی دفعہ اس طرح کی ترقی ہوئی ہے؟
انہوں نے کہا کہ بتائیں کہ کب اس طرح کی صنعتی ترقی ہوئی؟ کسانوں کے پاس بھی اتنا پیسہ آیا۔ ہماری فصلوں کے جو ریکارڈ ٹوٹے ہیں ایسا کتنی بار ہوا ہے؟ ہم یہ پوچھ رہے ہیں کہ جو ملک برصغیر میں سب سے اوپر جارہا تھا سب سے زیادہ روزگار ہم دے رہے تھے۔
ان کہنا تھا کہ بڑی صنعتوں کی شرح نمو 10.6 فیصد ہوئی۔ اس کے باوجود ہمارے خلاف مہم چلائی گئی۔ اب خود ہی نہیں سمجھ آرہا جو یہ تجربہ کار حکومت کا کہہ رہے تھے آج ان کے کیا حالات ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ میں آج خاص طور پر ورکنگ جنرلسٹ کو دھرنے کے دوران دیکھا ہوا ہے میں ان کو خراج تحسین بھی پیش کرتا ہوں جب کہ وہ اب بھی کوریج کررہے ہیں جبکہ پورے مالکان پر پریشر ڈالا ہوا ہے اور آج جو جو میڈیا ہاؤسز پاکستان کی جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں یہ بھی آج فیصلہ ہوجائے گا کہ کون اس طرف ہے اور کون دوسری طرف۔
انہوں نے مزید کہا کہ کل رات کو ڈاکٹر جاوید کی مرحوم اہلیہ جسٹس ناصرہ اقبال کی ویڈیو دیکھی، ڈاکٹر جاوید اقبال علامہ اقبال کے صاحبزادے ہیں ان کے گھر رات کو ریڈ ہوتی ہے ان کی ویڈیو کو پھیلا رہے ہیں۔ میں سب سے پھر پوچھتا ہوں کہ نیوٹرلز، عدلیہ سے کہ یہ جو سین دیکھ رہے ہیں کونسی حکومت یہ کرسکتی ہے۔ صرف مجرموں کی حکومت یہ کرسکتی ہے اور اس طرح کے کئی اور سین آرہے ہیں حماد اظہر کے گھر پر حملہ کیا گیا ان کی خواتین چھت پر بیٹھی تھیں۔ پولیس دیوار پھلانگ کر چلی گئی، پاکستان سے کونسی غداری ہورہی تھی؟کراچی میں ہمارے ایم این ایز کو پکڑ لیا۔
انہوں نے کہا میں آخر میں اپنی قوم سے مخاطب ہوں میں انشا اللہ کل خیبر پختوانخوا سے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جلوس لے کر نکل کر اسلام آباد کی طرف نکل رہا ہوں۔ خیبر پختوانخوا سے ہر جگہ سے ہمارے پاس قافلے جمع ہونگے اور ہم اسلام آباد پہنچیں گے۔ میں اس کو سیاست نہیں سمجھ رہا میں اس کو جہاد سمجھ رہا ہوں۔
عمران خان نے کہا اگر اس ملک میں کسی کی جان کو خطرہ ہے تو وہ میری جان کو خطرہ ہے لیکن مجھے اس کی کوئی فکر نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوںکہ ان چوروں کی حکومت جسے امریکا لایا ہے ۔ صرف اس لیے کہ یہ امریکا کی ساری چیزیں مانیں گے۔ یہ ان کے غلام ہیں ان کے قائدین کے پیسے باہر پڑے ہیں۔ لانگ مارچ میں عوام کے سمندر کو کوئی نہیں روک سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ زرداری اور نواز شریف کی حکومتوں کے 10 سال میں 400 ڈرون حملے ہوئے۔ ان کے منہ سے ایک دفعہ بھی کوئی لفظ نہیں نکلا۔ کیونکہ ان کو خوف تھا کہ کچھ بولا تو ان کے پیسے پکڑے جائیں گے۔ جس طرح مغرب کے اندر آج روسیوں کے پیسے پکڑ رہے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ ان کی غلامی سے موت بہتر ہے۔ اس لیے میں نے جہاد کا کہا ہے۔ عوام سے کہنا چاہتا ہوں کہ خوف کی زنجیریں توڑ دیں۔ خوف انسان کو غلام بناتا ہے، برصغیر میں صرف 4 سو انگریزوں نے 40 کروڑ لوگوں پر حکومت کی۔
انہوں نے کہا کہ جب بھی افغانستان پر باہر کی قوت آتی ہے وہ کھڑے ہوجاتے ہیں ان پر کوئی حکومت نہیں کرسکتا وہ سپر پاور کو شکست دے چکے ہیں۔ 22 کروڑ چوروں کی حکومت اس لیے تسلیم کریں گے کہ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں ہمیں جیل میں نہ ڈال دیں مجھے اپنی جان کی پروا نہیں۔ آپ کو جیلوں سے ڈر ہے، کتنے لوگوں کو جیلوں میں ڈالیں گے؟ یہ سب کو جیلوں میں نہیں ڈال سکتے۔ کسی قسم کے خوف میں نہیں آنا۔
انہوں نے کہا کہ قرآن کی آیت ہے ایمان والے لوگوں میں خوف نہیں ہوتا، زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے، عزت اس کے ہاتھ میں ہے، ہمیں کسی چیز کا خوف نہیں ہونا چاہے۔ اسلام آباد کا آئی جی مجرم ہے، یہ سیف سٹی کرپشن کیسز میں اس کو نکالنے والے تھے اس لیے ہم ایک ایک بیوروکریسی کو دیکھ رہے ہیں۔ میں پنجاب کی بیوروکریسی سے پوچھتا ہوں کہ آپ حمزہ شہباز کے آرڈر مان کیسے رہے ہیں؟ اس کا تو کل فیصلہ ہونے والا ہے۔ اس کی تو اکثریت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایک ایک کے نام یاد رکھیں گے، آپ کو غیر قانونی آرڈز ماننے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر آپ غیر قانونی احکامات مانیں گے تو آپ کے خلاف ایکشن لیا جائے گا، عوام کو کوئی نہیں روک سکتا۔ ملک کا مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ اپنی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ ہم سب کی جنگ ہے۔
انہوں نے کہا کہ عوام کا نزلہ پاکستانی افواج پر بھی گر رہا ہے۔ یہ پاک فوج کو بھی متنازع کررہے ہیں۔ 1999 میں بھی حکومت کو دوالیہ چھوڑ کرگئے تھے اور 2018 میں بھی حکومت دوالیہ چھوڑ کر کے گئے تھے۔ جو بیرون ملک مقیم پاکستانی 31 ارب ڈالر بھیجتے ہیں یہ ان کو ووٹ کا حق نہیں دینا چاہتے۔ الیکٹرونک ووٹنگ مشین سے ان کے جعلی ووٹ ختم ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے خواتین کو اس لیے حراساں کیا کیونکہ خواتین نے بڑی تعداد میں مارچ میں شرکت کریں گی۔
عمران خان نے یسیٰن ملک پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں کل ان کو سزا سنائی جائے گی، یسیٰن ملک کو کسی صورت دہشت گرد قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ان کی کشمیر کی آزادی کے لیے بڑی طویل جدوجہد ہے۔ ہندوستان کے پاس کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے ان کو دہشت گردی میں سزا سنائی جائے۔ میں پاکستان کی طرف سے سخت مذمت کرتا ہوں۔ بین الاقوامی برادری کو کہتا ہوں کہ اپنے ڈبل اسٹینڈرڈ ختم کریں ایک طرف تو کہتے ہیں اسرائیل کے خلاف آواز بلند کریں لیکن دوسری طرف جو کشمیر میں ہورہا اور سب کو نظر آرہا ہے کہ یہ کل اُن کو سزائے موت سنائی جائے گی۔