اسلام آباد – وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اس موقع پر وزارت عظمیٰ سنبھالنا کسی کڑے امتحان سے کم نہیں تھا، آئینی طریقے سے حکومت بدلی، پہلی بار دروازے پھلانگے نہیں گئے. 3 گھنٹے کی تاخیر سے قوم سے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے ملک کر عوام کے مطالبے پر لبیک کہا اور تبدیلی کو یقینی بنایا گیا، قوم نے جس ذمہ داری کے لیے مجھے منتخب کیا وہ میرے لیے اعزاز ہے، ملک کو سنگین حالات سے بچانا مقصود ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے حکومت سنبھالی تو ہر شعبہ تباہی کی داستان سنا رہا تھا، 3 دہائیوں کی عوامی خدمت کے دوران ایسی تباہی میں نے کبھی نہیں دیکھی جو سابق حکومت اپنے پونے 4 سال کی حکمرانی کے بعد پیچھے چھوڑی، یہی وجہ ہے ہم نے پاکستان کو بچانے کا چینلج کو قبول کیا۔
انہوں نے کہا کہ سابق حکومت نے اپنے سیاسی فائدے کےلیے سبسڈی کا اعلان کیا جس کی قومی خزانے میں کوئی گنجائش نہیں تھی لیکن ہم نے اپنے سیاسی مفاد کو قومی مفاد پر قربان کرنا قومی فرض جانا کیونکہ یہ فیصلہ پاکستان کو دیوالیہ پن سے بچانے کے لیے ناگزیر تھا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ سابقہ حکومت نے کیے تھے ہم نے نہیں، سابق حکومت جان بوجھ کر اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈال رہی ہے، فسادی ذہن نے سیاست میں زہر گھول دیا ہے، پاکستان آئین کے مطابق چلے گا، کسی ایک شخص کی ضد پر نہیں، پچھلی حکومت میں سفارتی خط کی نام نہاد سازش گھڑی گئی، نیشنل سیکیورٹی نے کہا کہ ایسی کوئی سازش نہیں ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ نوازشریف کےد ور میں پاکستان نمایاں ترقی کی، قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں 2 مرتبہ کہا گیا کہ کوئی سازش نہیں ہوئی، امریکا نے بھی سازش سے متعلق خبروں کو بےبنیاد قراردیا، اس شخص کی وجہ سے سی پیک معاہدہ تاخیر کا شکار ہوا۔
انہوں نے کہا کہ سابق حکومت کے پونے 4 سال میں ڈالر 189 پر پہنچ کیا اور قرض میں 20 ہزار ارب سے زائد کا اضافہ ہوا، رواں مالی سال میں بجٹ خسارے کا تخمیہ 5 ہزار 600 ارب روپے ہے، ہم نے دل پر پتھر رکھ کر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا۔ واضح رہے کہ شہباز شریف کا بطور وزیر اعظم یہ پہلا خطاب ہے اور پٹرول کی قیمت میں 30 روپے اضافے کے بعد کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس معاشی بحران میں پاکستان اور عوام کو سابق حکومت نے پھنسایا ہے، آج کا یہ مشکل فیصلہ معیشت کو بحران سے نکالنے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم غریب عوام کو پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے بوجھ سے بچانے کے لیے 28 ارب روپے ماہانہ سے نئے ریلیف پیکیج کا اعلان کر رہے ہیں، جس سے پاکستان کے ایک کروڑ 40 لاکھ غریب ترین گھرانوں کو 2 ہزار روپے دیے جارہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ گھرانے ساڑھے 8 کروڑ افراد پر مشتمل ہے جو پاکستان کی کل آبادی کا ایک تہائی حصہ بنتا ہے، یہ اس مالی امداد کے علاوہ ہے، جو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت انہیں پہلے دی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ سال کے لیے اس ریلیف پیکیج کو بجٹ میں شامل کیا جائے گا، یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کو ہدایت کی ہے کہ پاکستان بھر میں آٹے کے 10 کلو کا تھیلا 400 روپے میں فروخت کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ داخلی محاذ کی طرح خارجی محاذ پر گزشتہ پونے 4 سال پاکستان کے قومی مفادات کے لیے انتہائی مہلک ثابت ہوئے، ہر مشکل میں ساتھ دینے والے پاکستان کے دوست ممالک کو ناراض کیا گیا، اب ہم نے ان غلطیوں کی اصلاح اور دو طرفہ تعلقات کی بحالی کا عمل شروع کردیا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم پاکستان کے اس اصولی مؤقف کا پوری قوت سے اعادہ کرتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے لیے بھات کی ذمہ داری ہے کہ 5 اگست 2019 کے یک طرفہ اور غیرقانونی اقدامات کو ختم کرے تاکہ بامقصد بات چیت سے جموں اور کشمیر سمیت تمام متنازع امور کو حل کرنے کی طرف ٹھوس پیش رفت ہو۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے سامنے دہشت گردی اور بدامنی کی صورت میں ایک اور چینلج موجود ہے، یہ فتنہ بدقسمتی سے دوبارہ سر اٹھا رہا ہے، صوبوں کے ساتھ مل کر نیشنل ایکشن پلان کی ازسر نو بحالی شروع کردی ہے، یہ قومی مفادات سے جڑے منصوبوں کو تیزی سے مکمل کرنے کے لیے بھی نہایت ضروری ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ بلاشبہ مشکلات بے پناہ اور راستہ کانٹوں سے بھرا ہوا ہے لیکن ہمارا بھروسہ اللہ تعالیٰ کی کریم ذات پر ہے جو خلوص نیت سے کام کرنے والوں کی نیت کو ہر گز رائیگاں نہیں فرماتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم آپ سے عہد کرتے ہیں کہ مل کر امانت اور دیانت کے ساتھ شبانہ روز محنت کریں گے اور کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے، میں اور میری کابینہ اپنے ہر فیصلے کے لیے آپ کی عدالت میں جوابدہ ہوں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ سیاسی مخالفین کے لیے پیغام ہے کہ آئیے ہم سب مل کر پاکستان کو ایک ایسا ملک بنائیں جس میں اختلاف رائے کو دشمنی نہ سمجھا جائے جہاں تنقید کو حوصلے سے برداشت کیا جائے، جہاں قومی خدمت ہی سیاست کا اصل معیار ہو، درسگاہوں کھل جائیں، نفرت گاہوں کے در بند ہوجائیں، جہاں عورتوں کے حقوق مقدم، اقلتیوں کے حقوق محفوظ ہوں، جہاں مزدور اور کسان خوش حال ہوں، جہاں مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ ہوں، رزق کی فراوانی اور آسانی ہو، جہاں کا عدل باعث فخر ہو جہاں ظلم کا خاتمہ ہوجائے۔